قلعہ بارل
------------- ايک تاريخی يادگار
محمد شميم خان ،ايم
ايس سی فزيکل ايجوکيشن
پلندری آزاد کشمير سے بارہ ميل جنوب کی طرف دو بڑے
نالوں کی درميان اونچی گھاٹی پر ايک عمر رسيدہ اور خستہ حال عمارت جو قلعہ بارل کے نام سے مشہور ہے، زمانے
کی مسلسل بے اعتنائيوں کے باوجود اپنی مثال آپ ہے۔ يہ عمارت تقريبا" پونے دو
سو سال قبل تعمیر ہوئ- تیرھویں صدی میں کشمير پر مسلم سلاطين کی حکومت کا آغاز ہوا
اور سو برس تک مغل حاکم رہے۔ ستر برس تک پٹھان اور 1819ء سے1845 تک سکھوں کا عمل
دخل رہا جبکہ 1846 سے 1947 تک ڈوگرہ خاندان نے اس سر زمين پر اپنے ظلم و تشدد کا
بازار گرم رکھا۔ ان حکومتوں کے دوران يہاں کے کئ علاقے آزاد رہے جن میں علاقہ
پونچھ (سابق) سر فہرست ہے- آزاد قباءل کی زندگی پرسکون، خوشحال اور فارغ البال
تھی- یہ لوگ اپنی طرز زندگی کا ايک عميق اور منفرد فلسفہ رکھتے تھے۔ بيرونی تسلط کو کبھی قبول نہ کرتے تھے۔ جب
سری سکھ حکمران نے یہ چاہا کہ پوری رياست پر ان کا قبضہ رہے تو انہوں نے يہاں کے آزاد
حکمرانوں کی آزادی سلب کرنے کی غرض سے
حملہ کر ديا مگر آزاد قبائل نے متحد ہو کر کفر کو
پاک سر زمين سے بھاگنے پر مجبور کر ديا ۔
جب `15 ما رچ 1846 ء کے معاہدہ امر تسر کے تحت
رياست 75 لاکھ نانک شاہی کے عوص ڈوگروں کے حوالے کر دی گئ تو گلاب سنگھ نے
انگريزوں کے ايما پر دوسری بار حملہ کيا۔ آزاد
قبائل کے پاس کوئ منظم فوج نہ تھی اور نہ سامان جنگ اس قدروافر مقدار ميں موجود
تھا کہ بہت بڑی فوج کا مقابلہ عرصہ تک جاری رہتا۔ چنانچہ نتيجہ يہ نکلا کہ انتہائ
مزاحمت کے باوجود قبائل کی آزادی سلب کر
لی گئ۔ وقتی طور پر گلاب سنگھ اور اسکے حواريوں نے لوگوں کو ظلم و تشدد سے اپنا
مطيع بنا ليا۔ مگر غلامی صرف جسمانی تھی کيونکہ آزادی کی ـچنگاری راکھ کے نيچے دبی
دھيرے دھيرے سلگ رہی تھی۔ جس نے ان کے دلوں ميں
ہندو ازم کے خلاف نفرت کی طوفانی آگ بھڑکا دی۔
سکھوں اور ڈوگروں کو پہلی بار جو ہزيمت اٹھانا
پڑی تھی تو اس کے انتقام کے طور پر انھوں نے يہاں کے عوام پر ظلم و تشدد کی انتہا
کر دی۔ ڈوگرا حکومت نے عوام کی مزہبی، سماجی، تہزيبی وتمدنی زندگی ميں کئ تبديلياں
رونما کرنے کی سعی کی۔ نيز ان کی طرف سے کسی وقت بھی اٹھنے والی آزادی کی تحريک کو
دبانے اور ہميشہ کے ليے اپنا تسلط برقرار رکھنے کی غرض سے کئی ايک عمارتيں تعمير کروايں
جو آج بھی ڈوگرہ دور حکومت کے تشدد اور ظلم و ستم کی ياد دلاتی ہے۔ اسی غرض سے
علاقہ بارل ميں ايک قلعہ تعمير ہوا۔ کيوںکہ يہاں کے عوام نے غلامی کی زنجير پہننے
سے قطعی انکار کر ديا۔ وہ تو ان تمام تلخ پابنديوں کے باوجود حتی الامکان آزادی کی
کوشش جاری رکھے ہوۓ تھے۔
ارادے جن کے پختہ ہوں
نظر جنکی خدا پہ ہو
تلاتم خيز موجوں سے
وہ گبھرايا نہيں کرتے
يہ قلعہ جو بارل کے وسط ميں واقع ہے۔ ايک سو برس
تک ڈوگراہ بربريت کا مرکذ رہا ہے۔ اس کے مشرق ميں کوہالہ، مغرب ميں اٹکورہ، شمال
ميں پلندری اور جنوب ميں سہنسہ و اقع ہيں۔ اس کا سنگ بنياد 1837 ميں مہاراجہ گلاب
سنگھ کے دور ميں رکھا گيا۔ اسکی تعمير ايک آنہ يوميہ کی مزدوری پر عمل ميں آئی۔ اسکے
پتھر سہر نالہ (جو ڈيڑھ ميل کی دوری پرہے) سے لاۓ گۓ۔ عوام علاقہ عمارت کی جاۓ
وقوعہ سے مذکورہ نالے تک ايک لمبی قطار بناتے اور پتھروں کو حرکت ديتے رہتے۔ يہ
سلسلہ صبح تا شام جاری رہتا حتی کہ عمارت ميں صرف ہونے والےتمام پتھر اسی طریقہ سے
لاۓ گۓ ۔علاوازيں سرخی اور چونا پنيالی(جو پانچ میل کی دوری پر ہے) سے لايا گيا۔
ڈوگرہ سا مراج نے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے
اور ہميشہ کے لۓ اپنا مطيع و فرمانبردار بنانے کی غرض اس قدر مظالم ڈھاۓ کے قلعہ
کی تعمير کی ابتدا ميں ايک مقامی مسلمان کو قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے والے ستون
کے نيچے زندہ دفن کر ديا گيا تاکہ لوگ آآزادی کی سی انمول نعمت کو ذہن میں نہ لا
سکیں مگر جنہيں ڈوب کر ابھرنا ہوتا ہے بھلا وہ کب طوفان سے ڈرا کرتے ہیں
بے غرق ہوۓ کوئ
ابھرتا ہی نہيں ہے
جو قوم پر مرتا ہے وہ
مرتا ہی نہيں ہے
قلعہ کی تعمير ميں جو پتھر استعمال ہوۓ ہیں وہ
مختلف سائيز کے ہيں جن ميں سب سے چھوٹا پتھر "4"7 اور سب سے بڑا "12"7
کا ہے البتہ ايک پتھر کی لمبائ 96 انچ ہے يہ پتھر بڑے دروازس سے داخل ہوتے ہوۓ
بائيں طرف کے دروازے ميں نصب ہے قلعے کی اندرونی ديواريں 22 انچ چوڑی ہيں
جبکہ باہر کی ديوار 38 انچ چوڑی ہے جس ميں چاروں بندوںکوں اور ہلکی توپوں سے فائير
کرنے کی جگہيں موجود ہيں۔
قلعے کی تکميل اس کی تاريخ آغاز سے لے کر مسلسل
کام کے باوجود 1839 ميں ہوئی ۔قلعے کی تکميل کے فورا بعد ہی يہاں ايک ڈوگرا پوليس
چوکی قائم کی گئ ۔جس نے عوام علاقہ کو غلامی کی زہجيروں ميں جکڑنے کی ہر ممکن کوشش
کی، اور ان پر طرح طرح کے ظم و ستم روا رکھے۔ جب ظلم انتہا کو پہنـچ جاۓ تو
مظلوم ميں بھی کوئ خوف باقی نہيں رہتا۔ چنانچہ آزادی کی وہ چنگاری جو اندر ہی
اندر مظلوم مسلم قبائيل ميں دھک رہی تھی اور جس نے انہيں انگريزی فوج ميں بھرتی ہو
کر تربيت حاصل کرنے پر مجبور کر ديا تھا، ايک بار پھر بھرک اٹھی۔ باطل کے خلاف صدا
احتجاج بلند ہوتے وقت يہاں اچھے تربيت
يافتہ جوانوں کی کوئی کمی محسوس نہ کی گئی۔ کيونکہ يہ لوگ بنيادی طور پر بہادر،
جنگجو اور نڈر تھے۔ وہ دشمن کے خلاف صف آرا ہونا جانتے تھے۔ اور يہ جانتے تھے کہ
مکاروعيار دشمن سے کيسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ آخر کار ان کی عظيم قربانياں و رنگ لائیں۔ نتيجتا ہم آج آزادی کا سانس لے رہی
ہيں۔
گرداب ميں جس شخص کو
جينا نہيں آتا
اس شخص کا ساحل پہ
سفينہ نہيں آتا
ڈوگرا سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی وہی قتل گاہ خاص
و عام بچوں کی ايک تربيت گاہ ميں بدل گئی۔ 1947 سے 1957 تک اس قلعے سے مڈل سکول کا
کام ليا گيا۔ کيونکہ سکول کيلۓ کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔
يہ عمارت جو آج کل اپنی بے بسی اور کسمپرسی پر
سرگر يہ کناں ہے دو ہال اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط ميں ايک کنواں جو
سنتے ہيں کہ بہت گہرا ہوا کرتا تھا، اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے۔ عصر حاضر
ميں اس قلعے کے اندر جس کی عمارت تين کنال کے رقبے ميں پھيلی ہوئی ہے۔ شہتوت، ہاڑی،
جنگلی اناروں کے علاوہ بے شمار قسم کی خود رو جڑی بوٹياں اگی ہوئی ہيں۔ کچھ
ديواريں حالت رکوع ميں ہيں اور کچھ گريباں چاک ہيں۔ چھت گويا تھی ہی نہيں۔ اے کاش
کوئ اس بے چارگی و کسمپرسی پر چارہ گری کا بيڑا اٹھاتا۔ قلعہ بارل آج بھی منتظر ہے
کسی ايسی آنکھ کا جس کے دريچے ماضی کی عظمت رفتہ کی ديوار پر کھلتے ہيں۔
No comments:
Post a Comment